ওয়া আলাইকুমুস-সালাম ওয়া রাহমাতুল্লাহি ওয়া বারাকাতুহু।
বিসমিল্লাহির রাহমানির রাহিম।
জবাবঃ-
আলহামদুলিল্লাহ!
তাওয়াফ করার সময় কাবা স্পর্শ করা অনুচিত। কা'বা স্পর্শ করতে যেয়ে যদি বুক কা'বার দিকে থাকে,তাহলে মাকরুহে তাহরিমী হবে। তবে তাওয়াফ ফাসিদ হবে না।
দারুল উলূম দেওবন্দ থেকে প্রকাশিত একটি ফাতাওয়া বলা হয় যে,
Fatwa: 968-1014/N=10/1438
(۱):عمرے کا طواف ہو یا حج کا یا کوئی نفلی طواف ہو، کسی بھی طواف میں طواف کے دوران بیت اللہ شریف کی طرف دیکھنا خلاف ادب اور خلاف مستحب ہے، طواف کے وقت آدمی کی نظر چلنے کی جگہ (پیروں کی طرف اور اس سے کچھ آگے) رہنی چاہیے۔اور اگر بیت اللہ شریف کو دیکھتے ہوئے سینہ بیت اللہ کی طرف ہوجائے تو یہ مکروہ تحریمی ہے اور اگر اسی حالت میں کچھ فاصلہ طے کیا گیا تو اس حصہ طواف کا اعادہ ضروری ہوگا(احسن الفتاوی ۴: ۵۵۷، ۵۵۸، مطبوعہ: ایچ، ام سعید کمپنی، کراچی)۔
وکذا - أعاد- لو استقبل البیت بوجھہ أو استدبرہ وطاف معترضاً کما في شرح اللباب وغیرہ (رد المحتار، کتاب الحج ۴: ۵۰۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، لو استقبلہ بصدرہ أو استدبرہ بظھرہ فطاف معترضاً أو طاف کیفما کان صح طوافہ واعتد بہ في ثبوت التحلل عندنا ولکنہ ترک الواجب فعلیہ موجبہ، تنبیہ: لیس شییٴ من الطواف یجوز عندنا مع استقبال البیت الخ (غنیة الناسک ص ۶۰، ط: قدیم)، وصون النظر عن کل ما یشغلہ ، وینبغي أن لا یجاوز بصرہ محل مشیہ کالمصلي لا یجاوز بصرہ محل سجودہ؛ لأنہ الأدب الذي یحصل بہ اجتماع القلب(المصدر السابق ص ۶۵)۔
(۲): طواف کے دوران غلاف کعبہ کو چومنا ثابت نہیں؛ البتہ طواف کے شروع میں اور ہر چکر میں حجر اسود کے پاس پہنچ کر اور ختم طواف پر حجر اسود پر دونوں ہاتھ رکھ کردونوں ہاتھوں کے درمیان حجر اسود کو (آواز کے بغیر )بوسہ لینا سنت ہے بہ شرطیکہ بوسہ لینے میں کسی دوسرے کو کوئی تکلیف واذیت نہ دی جائے ورنہ حجر اسود کو صرف ہاتھ لگاکر یا اس کی طرف ہاتھوں سے اشارہ کرکے ہاتھوں کو چوم لیا جائے۔
فاستقبل الحجر مکبراً مھللاً رافعاً یدیہ کالصلاة واستلمہ بکفیہ وقبلہ بلا صوت ……وإلا یمکنہ ذلک یمس بالحجر شیئاً في یدہ ولو عصاً ثم قبلہ أي: الشیٴ، وإن عجز عنھما أي: الاستلام والإمساس استقبلہ مشیراً إلیہ بباطن کفیہ کأنہ واضعھما علیہ وکبر وھلل وحمد اللہ تعالی وصلی علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم ثم یقبل کفیہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳:۵۰۴، ۵۰۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وکلما مر بالحجر فعل ما ذکر من الاستلام ……وختم الطواف باستلام الحجر استناناً (المصدر السابق، ص ۵۱۱-۵۱۲)۔
(۳): طواف کے دوران کسی جگہ رک کر دعا مانگنا یا بیت اللہ سے چمٹ کر دعا مانگنا مکروہ ہے ، طواف تسلسل کے ساتھ ہونا چاہیے ۔اور اگر آپ دوران طواف دعا مانگنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے رکنے کی ضرورت نہیں، طواف جاری رکھنے کے ساتھ دعا مانگتے رہیں۔ اور طواف کے علاوہ عام حالات میں اگر موقع ملے تو ملتزم سے چمٹ کر دعا کرنی چاہیے، وہ قبولیت دعا کی جگہ ہے۔
وأما مکروھاتہ - مکروہات الطواف- الوقوف للدعاء في أثناء الطواف فی الأرکان أو في غیرہ؛ لأن الموالاة بین الأشواط وأجزاء الأشواط سنة موٴکدة (غنیة الناسک، ص ۶۷، ط: قدیم)، وانظر البحر العمیق (ص ۱۲۳۴، ۱۲۳۵، ط: المکتبة المکیة) أیضاً۔
(۴):اوپر ذکر کردہ احکام ہر طواف کے لیے ہیں خواہ وہ عمرے کا طواف ہو یا حج کا یا کوئی نفلی طواف ہو۔